سید الکونین، رسول الثقلین سیدا لمرسلین، خاتم النبین حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات اقدس پر سلسلہ نبوت ختم ہو گیا۔ لیکن اُمت کی رہنما ئی کے لیے ارشادات و ہدایات کاطریق جاری ہے۔ اپنے حقیقی آقا و مولیٰ کا تقرب حاصل کرنا اور اس کی بارگاہ معلیٰ تک رسائی بندہ کا اصلی مقصد ہے اور یہ مقصد وسیلہ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ رب کائنات نے اپنے بندوں کو اپنی بارگاہ تک رسائی کا راستہ بتا تے ہو ئے
ارشاد فرمایا ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ آیت نمبر 35 پارہ نمبر 5 سورۃ المایدہ
ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کیلیے وسیلہ تلاش کرو۔
اصل الوسائل تو حضورﷺ کی ذات پاک ہے۔ حضورﷺ کے صدقہ اور طفیل سے فیض یافتہ اصحاب و اہل بیت اطہار اور ان سے فیض یاب آئمه دین اور اولیا کاملین رضوان اللہ علیہم اجمئین اور وہ پیران کرام و مشائخ عظام ہیں جن سے سلسلہ بیعت طریقت جاری ہوا۔ اور آج تک جاری ہے۔
یہ سلسلہ بیعت زمانہ قدیم سے چلا آتا ہے۔ آنحضورﷺ کے عہد مبارک مین متعدد امور کے لیے بیعت کی جاتی تھی جو خلافت اسلامیہ کے ختم ہونے سے ختم ھو گئی۔ لیکن بیعت طریقت کا سلسلہ ہر دور میں پوری قوت سے جاری رہا اور جاری ہے۔ سلاسل طریقت بنیادی طور پر چار ہیں
١ سلسلہ قادریہ
٢ سلسلہ چشتیہ
٣ سلسہ سہروردیہ
٤ سلسلہ نقشبندیہ
ان سب سلاسل کا منبع سلسلہ قادریہ ہے جو کہ شہنشاہ بغداد حضرت السید شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سلسلہ ہے۔ سلسلہ قادریہ کے مشائخ عظام نے پوری دنیا میں تبلیغ دین کا کام کیا اور آج تک بھرپور طریقہ سےیہ فیضان کرم جاری و ساری ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جانشین صاحبزادے حضرت عبدالوہاب کے پوتے سید ابوالعباس احمد بن سید صفی الدین عبدالسلام صوفی نے تبلیغ دین کیلیے عراق سے شام کے شہر حلب کی طرف ہجرت کی اور حلب سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسل کی آٹھویں پشت سے حضرت شیخ محمد غوث بندگی رحمۃ اللہ علیہ نے اوچ شریف ہجرت کی۔آپ اپنے ساتھ صرف اپنے جد امجد کے تبرکات اور کتب لائے جو کہ آج تک اوچ شریف میں موجود و محفوظ ہیں۔ حضرت غوث محمد بندگی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سلسلہ قادریہ کو جنوبی ایشیاء میں زبردست فروغ ملا۔ آپ مورث اعلی سادات گیلانیہ و سلسلہ عالیہ قادریہ ہیں۔
حضرت موسیٰ پاک شہید حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گیارویں پشت پر ہیں۔ آپ کے والد گرامی حضرت مخدوم سید قطب الدین حامد گنج بخش جہاں بخش بن مخدوم عبدالرزاق بن نصیرالدین عبدالقادر ثانی بن عبدالفتوح شیخ محمد غوث بندگی الاوچی ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت 952 ہجری میں اوچ میں ہوئی۔ آپ کا لقب ثانی محی الدین کنیت ابوالحسن اسم مبارک حافظ جمال الدین موسیٰ ہے۔ آپ کے والد گرامی نے اپنے صاحبزادے کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ فرمائی۔ والدماجد نے اپنے بیٹے کی اہلیت و قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین مقرر کر دیا ۔ آپ نے اپنی تعلیمات سے بہت سے غیر مسلموں کو مسلمان کیا۔ آپ تقویٰ کے حامل سچے عاشق رسولؐ تھے۔ اور آپ کے اعمال ہی آپ کی شخصیت کے آئینہ دار تھے۔ اور آپ لوگوں کے لیے مشعل راہ تھے۔ آپ ایک بہت بڑے بزرگ محقق اور سپہ سالار تھے۔ تبلیغ دین کا آپ کا سلسلہ ایران، توران افغانستان،وسطی ایشیا اور ہندوستان تک وسیع تھا۔ آپ سلسلہ قادریہ کے شیخ الکل ہیں
نامور محقق و علم الحدیث کے شارح اور کتب کے مصنف شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے 985 ہجری میں آپ کے پاتھ پر بیعت کی۔
شہنشاہ اکبر کے زمانے میں دین اکبری کی بات ہوئی تو آپ دیوان خاص و دیوان عام میں با جماعت نماز اور دین کی تعلیم کا انتظام کرتے۔ آپ کی تصنیف تسیرالشاغلین سلسلہ قادریہ میں ایک انسائکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ھے۔
آپ کے چار صاحبزادے ہیں
١ سید فیض اللہ مخدوم حامد گنج بخش ثانی
٢ حضرت جان محمد – قلعہ فیروزشاہ دہلی
٣ سید محمد عیسیٰ
٤ یحییٰ نواب سخی
آپ کی شہادت 1010ہجری میں ہوئی۔ آپ کا مزار پاک دروازہ ملتان میں دربار عالیہ قادریہ حضرت پیران پیر رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے مرجع خلائق عام و خواص ہے۔